Skip to content

Instantly share code, notes, and snippets.

@deepakjois
Last active August 29, 2015 14:20
Show Gist options
  • Save deepakjois/79e89961b60de2e61e44 to your computer and use it in GitHub Desktop.
Save deepakjois/79e89961b60de2e61e44 to your computer and use it in GitHub Desktop.
Typesetting Urdu in SILE
\begin[papersize=a4,direction=RTL]{document}
\set[parameter=document.parindent,value=0pt]
\nofolios
\font[family=Jameel Noori Nastaleeq,language=urd,direction=RTL,script=Arab]
\font[size=48pt]
\begin{center}
’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ افسانہ کا جایزہ
\end{center}
\bigskip
\font[size=24pt]
\begin{center}
مصنف کے بارے میں
\end{center}
\medskip
\font[size=18pt]
سعادت حسن منٹو اردو کے ایک جانے مانے افسانہ نگار ہیں۔ وہ پنجاب کے لدھانہ ضلع میں 1912 میں پیدا ہوئے۔ ان کے ماں باپ کشمیری مسلمان تھے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر نے کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین ہند کے ساتھ جڑے۔ 1936 میں وہ بمبئی شہر جا کر بس گئے جہاں انہوں نے اپنے کئی مشہور افسانے اور فلم کے سکرپٹ لکھے۔ 1947 میں بٹوارے کے بعد وہ لاہور چلے گئے۔ وہاں ان کی ملاقات فیض احمد فیض، سید ناصر رضا كاظمی اور احمد ندیم قاسمی‎ سے ہوئی اور وہ اخباروں کے لئے مضمون لکھنے لگے۔ 1955 میں ان کا انتقال ہوا۔
\bigskip
\font[size=24pt]
\begin{center}
کہانی کا خلاصہ
\end{center}
\medskip
\font[size=18pt]
’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ بٹوارے کے کچھ سال بعد کی ایک پاگل خانے کی کہانی ہے۔ ہندستان اور پاکستان کی حکومتیں فیصلہ کرتی ہیں کہ پاکستانی پاگل خانوں میں رہنے والے ہندو اور سکھ پاگلوں کو ہندستان، اور ہندستان میں رہنے والے مسلمان پاگلوں کو پاکستان بھیجا جائے گا۔ اس خبر کو سن پاکستان کے ایک پاگل خانے میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ وہاں کے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ وہ الجھن میں پڑ جاتے ہیں کہ انھیں کہاں بھیجا جائے گا۔ ان میں سے کچھ پاگلوں کے درمیان لڑائیاں بھی چھڑ جاتی ہیں۔
\bigskip
اس پاگل خانے مین بشن سنگھ نام کا ایک سکھ پاگل رہتا ہے جو کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ نام کے ایک شہر میں رہا کرنا تھا۔ وہ لگاتار پتا کر نے کی کوشش کرتا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندستان میں ہے یا پاکستان میں، لیکن کوئی اسے پکا جواب نہیں دیتا ہے۔
\bigskip
جب بشن سنگھ کو غصہ آتا ہے تو وہ پنجابی اور انگریزی کو ملا جلا کر بڑبڑانے لگتا ہے۔اس کی باتیں ویسے تو بے مطلب ہوتی ہیں لیکن ان میں ہندستان اور پاکستان دونوں کے لیے دبی ہوئی گالیاں شامل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر:
\bigskip
”اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی دور فٹے منہ ! “
\bigskip
آخری وقت پر جب پولیس اس کو ہندستان روانہ کرنے لگتی ہے، تو اسے پتا چلتا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان کی طرف پڑتا ہے۔ بشن سنگھ جانے سے انکار کر دیتا ہے۔ کہانی کے آخر میں وہ دونوں ملکوں کی سرحدوں کے بیچ لیٹا، مرا یا مرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ افسانے کے آخری جملے ہیں:
\bigskip
”ادھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔“
\bigskip
\font[size=24pt]
\begin{center}
کہانی کی تنقید
\end{center}
\medskip
\font[size=18pt]
’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ افسانہ بٹوارے کے وقت ملک کے لوگوں پر سوار ہوئے پاگل پن اور وحشت کو بیان کر تا ہے۔ منٹو ایک ’پاگل خانے‘ میں رہنے والے ذہنی طور پر معذور لوگوں کی بٹوارے کو لے کر بے چینی، افرا تفری اور آپسی رنجش کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس تصویر میں اس وقت کے عام ہندستانیوں کے برتاؤ اور اعمال کا عکس نظر آتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بٹوارا ایک غیر منطقی اور نا معقول ذہنیت کی پیدائش تھا، جس کی وجہ سے ایک ملک کے صدیوں سے ساتھ رہتے آئے لوگ راتوں رات ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔
\bigskip
فسانے میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح بٹوارے کے وقت دور بیٹھی پوشیدہ کمیٹیوں کے فیصلوں نے ملک کے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو ادھر سے اُدھر کر دیا۔ کئی عام لوگ بھی ان طاقتور لوگوں کی باتوں میں اتنی آسانی سے آ گئے کہ انھوں نے اس صورت حال پر کوئی سوال تک کھڑے نہیں کئے۔ بشن سنگھ شاید ان ’پاگل‘ لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے، جنھوں نے بٹوارے کے پیچھے کے مفروضات کو قبول نہیں کیا اور اپنے وجود کو لالچی سیاست دانوں کے منصوبوں کے مطابق ڈھلنے سے انکار کیا۔
\end{document}
Sign up for free to join this conversation on GitHub. Already have an account? Sign in to comment